عزیز رفیع فرحت
عبدالله ولی بخش قادری
فرحت کے دادا جان نے میری طرف
اشارہ کرتے ہوۓ کہا:"گالی دو، اِکنّی ملے گی." وہ کچھ کس مساۓ مگر ٹس سے
مس نہ ہوئے. انھوں نے جب سے اکنّی نکالتے ہوئے کہا: "دیکھ، میں کہتا ہوں گالی
دے." اور فرحت نے بلا تکلف و تامل ایک فرمایشی گالی دے ڈالی اور فوراً انعام
پایا. اس وقت ان کی عمر تین چار سال کی ہوگی. ان کے والد اپنے والدین کی اکلوتی
اولاد تھے اور ان کی یہ پہلی اولاد، مزید برآں ان کے داداجان نہایت خوش دل، مگن
اور مست مولا انسان تھے. لہٰذا پوتے کے ساتھ جو کچھ بھی روا رکھتے وہ بجا تھا. سینٹ
جانس کالج آگرہ سے ایل. ایل. بی. کی ڈگری حاصل کی تھی مگر وکالت سے براۓ نام ہی
لگاؤ رکھتے تھے. ھمارے تاؤ زاد بھائی تھے. یادداشت بہت اچھی تھی. بے شمار اشعار
یاد تھے. کسی مشاعرے میں شرکت کرتے تو پسندیدہ اشعار ان کے حافظے میں محفوظ ہو
جاتے. وہ معمولاً شام کو ہمارے یہاں آیا کرتے اور کوئی نعتیہ یا منقبتیہ شعر
گنگناتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے. ان کا گالی دینا یا چھوٹے بچوں سے دلوانا، ان کے
اظہار محبت کی علامت ہوتا تھا. مگر ان کی گالی ادھوری سے بھی کم ہوتی تھی البتہ
بچوں کو پوری سکھاتے اور کہلواتے تھے. وہ عادتاً اپنے ہاتھ ملتے رہتے تھے. ان کے
دور کے بدایوں کے ایک مشہور طنز و مزاح کے شاعر حاتم صدیقی کا ہر معزز شخص ہدف
ضرور بنتا. انھوں نے ہمارے تاؤ کے بارے میں بہت کچھ گل افشانی کی ہے. ان کا ایک
شعر اس وقت یاد آیا. اس کا اشارہ واضح ہے.
وحیدی آب دیدہ ہوکے یہ بولے وکالت پاس ہے لیکن کفِ افسوس ملتا ہے
فرحت کے والد، میرے بچپن سے دوست
اور ساتھی تھے. بس سال ڈیڑھ سال مجھ سے چھوٹے تھے اور کچھ اسی فرق کے ساتھ میرے ہم
زلف بھی بنے تھے. وہ خاموش طبع اور سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے. انھیں چار بیٹے اور
ایک بیٹی نصیب ہوئے. ان کے تین بیٹوں نے انجینئری کی ڈگری حاصل کی اور ایک ڈاکٹر
بنا اور بیٹی نے بھی اعلا تعلیم حاصل کی. اس کی شادی میرے بھتیجے محی بخش سے ہوئی
ہے جو آج کل سرکاری ملازمت میں ایگزیکیٹو انجینئر کی حیثیت سے لکھنؤ میں اپنا تقرر
رکھتے ہیں اور لکھنؤ ہی میں فرحت میاں بھی سرکاری ملازمت میں اپنا تقرر رکھتے تھے.
وہ بہن اور بہنوئی سے غیر معمولی لگاؤ کے باوجود اپنے مزاج کے مطابق الگ مجردانہ
زندگی گزار رہے تھے اور گرہستھی کا بھرپور اہتمام رکھتے تھے. ١١ فروری ٢٠٠٠ء کو
محی میاں مع اہل و عیال شام کو بدایوں کے لیے روانہ ہوئے مگر فرحت میاں نے کہا کہ
میں کار سے جاؤں گا تاکہ کار بدایوں میں چھوڑ آؤں، میں نے ڈرائیور کا انتظام کر
لیا ہے، باجی (والدہ) کو سول لائنس سے سوتھ محلہ، مولوی ٹولہ جانے میں سہولیت رہے
گی. یہ پروگرام عمل میں آیا. میں ایک روز قبل بدایوں پہنچا. سارا دن تقریب کی
ہماہمی میں کٹا. شام کو محی میاں مع اہل و عیال لکھنؤ سے آ گئے اور بتایا کہ فرحت
بھائی کار سے آ رہے ہیں لیکن رات کی تاریکی بڑھتی رہی. ان کے لیے گھر والوں کی
نیند بھی جستجو کرتی رہی لیکن مشیت ایزدی کو کچھ اور ہی منظور تھا. علی الصباح یہ
پریشان کن خبر ملی کہ بریلی کے قریب فرحت میاں کی کار کو کسی ٹرک نے ٹکر مار دی
اور وہ شدید زخمی ہو گئے ہیں لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ جان بحق ہو چکے تھے...... دوپہر
کو علی گڑھ سے برات آئ اور دوپہر بعد رخصتی ہوئی. رات کو بارہ بجے کے قریب اپنے ہی
محلہ سوتھ میں حضرت سرخ شہید (رح) کی زیارت کی حریم میں فرحت میاں کو سپرد خاک
کیا. اسی حریم کے ایک گوشے میں ہمارے دادا اور دادی مدفون ہیں اور اس کے باہر کی
طرف ریلوے اسٹیشن سے آنے والی شاہ راہ گزرتی ہے اور اس کے مقابل اندر کی طرف ایک پختہ
بڑا دلان ہے اور اس کے سامنے کچھ جگہ. اس طور حریم کا تقریباً نصف حصّہ پورا ہو
جاتا ہے اور باقی ماندہ بیشتر حصے میں حضرت سرخ شہید (رح) کا مزار ہے. ان کا وصال
٧١٨ ہجری میں ہوا اور پائیں ہمشیرہ کی قبر ہے. ہماری خاندانی روایت کے طور پر
ہمارے تاؤ مولوی وحید بخش صاحب اسی درگاہ کے دلان کے سامنے آسودہ خواب کیے گئے. ان
کے فرزند اکبر مولوی قیوم بخش صاحب نے بھی ان کے قریب میں دائمی جگہ پائی. بعد
ازیں ان کی اکلوتی اولاد رفیع بخش قادری بھی اپنے دادا اور باپ کے پاس ہمیشہ کے
لیے سو گئے اور اب اپنے ان بزرگوں کے درمیان فرحت میاں بھی مدفون ہو گئے. خدا ان
سب کی مغفرت فرماۓ. واپسی پر ایک عزیز نے کہا کہ "اب یہ جگہ تنگ ہو گئی اور
یوں آبادی کے درمیان کسی کو اجازت بھی آئندہ غالباً نہ ملے گی." میں نے کہا –
"اب ضرورت بھی نہیں رہی. فرحت میاں نے شادی نہیں کی تھی. لہٰذا نسل نرینہ کے
اس دینوی شرف کی روایت کا سوال ہی نہیں رہا."
فرحت میاں نے ١٩٨٠ء کے بعد
تقریباً ایک سال ہمارے ساتھ گزارا تھا. وہ چلبلے اور خوش مزاج تھے. بہت جلد میرے
احباب اور پڑوسیوں سے گھل مل گئے تھے. کھانے کے شوقین تھے مگر خوش خوراق نہیں تھے.
البتہ چکھا چکی کرتے رہتے تھے بلکہ جو سامنے پڑ جائے یا ہاتھ چڑھ جائے اسے بھی
شریک کر لیتے. کھانا پکوانا اور پکنے کے دوران دخل اندازی ان کے مشغلے کے اجزاۓ
ترکیبی تھے. رفتہ رفتہ ان کی نظریں ہر کونے اور گھر کی ہر شے پر پڑنے لگیں. ایک دن
میں نے دیکھا کہ موصوف بُرش ہاتھ میں لیے ہوئے، آرام کمرے کے ایک کواڑ کو تختہ مشق
بناۓ ہوئے ہیں. پینٹ بیشتر زمین پر گر رہا تھا اور ٹھیک طور پر لگ بھی نہیں رہا
تھا. میں نے ٹوکا تو کچھ رکے اور کام سمیٹ ہی دیا. دوسرے روز ہی ایک پینٹر کو
ڈھونڈ نکالا اور سارا کام اپنی نگرانی میں کرا کے دم لیا. انھیں دہلی تو اچھا لگا،
جامعہ کا ماحول بھی پسند آیا، اپنی خالہ کی رفاقت سے خوش تھے، مگر ڈی. ڈی. اے. کی
ملازمت انھیں پسند نہیں آئ. لہٰذا بیرون ملک جانے کے لیے کوشاں ہو گئے. ایک سال
بھی ابھی یہاں پورا نہیں ہوا تھا کہ ملازمت ہاتھ آ گئی اور وہ سعودی عرب چلے گئے.
دنوں ان کی کمی کا احساس ستاتا رہا.
اس وقت تک فرحت میاں کی ادبی
دلچسپی کے بارے میں مجھے صرف اس قدر واقفیت تھی کہ وہ کچھ افسانہ نویسی کرتے ہیں
لیکن میں نے ان کا کوئی افسانہ تحریر شدہ یا چھپا ہوا نہیں دیکھا. وہ شعر و ادب سے
کسی قدر لگاؤ ضرور رکھتے تھے لیکن ان کے بارے میں یہ گمان کبھی نہیں گزرا کہ وہ
سخن گو بھی ہیں. خلاف توقع وہ سال بھر میں بیرونی ملازمت چھوڑ کر واپس بھی آ گئے
کیوں کہ انھیں اتر پردیش میں سرکاری ملازمت مل گئی. یہاں وہ اپنے کام میں لگ گئے. والد
کی وفات کے بعد ان کے اندر اپنی زمہ داری کا احساس تو بڑھا لیکن انھوں نے اپنے لئے
جو آداب زندگی مرتب کر لیے تھے ان پر کاربند رہے. طبیعت میں مطلق العنانی نے گھر
کر لیا تھا. ازواجی زندگی گزارنے کے لیے آمادہ نہ ہوئے. ان کی زندگی کی بے
اعتدالیاں اظہر من الشمس تھیں لیکن میرے نزدیک وہ ایک بہت بڑی پوشیدہ خوبی کے مالک
بھی تھے. وہ غیر معمولی مخیّر اور غریب نواز بھی واقع ہوئے تھے.
چند روز پہلے کی بات ہے کہ محی
میاں نے مجھے لکھنؤ سے فون پر بتایا کہ فرحت میاں کی شاعری سے متعلق کچھ معلومات
ان کی مختلف ڈائریوں سے حاصل ہوئی ہے، اسے وہ بھیج رہے ہیں اور میں اپنے مضمون
طباعت کا اہتمام کروں. دراصل فرحت میاں کی شاعری کا انکشاف اور اس کو محفوظ بنانے
کی صورت مسرت میاں (وارث رفیع) اور محی میاں کی خواہش و کاوش کا نتیجہ ہے. شعری
کلام کو یکجا کرنے اور فرحت کی شاعری اور زندگی پر روشنی ڈالنے والا مضمون لکھنے
کی زحمت مجی تسلیم غوری نے اٹھائی ہے. وہ بدایوں کے ایک ہونہار نثر نگار کی حیثیت
رکھتے ہیں. بدایوں اور اہل بدایوں کے بارے میں انھوں نے خاص طور پر لکھا ہے. مجی
اسعد بدایونی کا مضمون اپنے دوست کے بارے میں بے مثال کہلانے کا مستحق ہے. وہ اچھا
بھی ہے اور سچا بھی. اس سے ان کی شرافت نفس اور خلوص دل کا بھی اظہار ہوتا ہے. وہ
دور حاضر کے شعرا میں اپنا مقام رکھتے ہیں جو ہم جیسے دور افتادگان وطن کے لیے
بالخصوص باعث فخر و مسرت ہے. برادر محترم سرور صاحب کے بارے میں صرف اتنا بتانا
چاہتا ہوں کہ یہ کلمات بوجہہ علالت انھوں نے املا کراۓ ہیں. وہ ہمارے خاندان کی سب
سے بزرگ اور برگزیدہ شخصیت ہیں. خدا انھیں صحت مند رکھے اور ان کے دست شفقت سے ہم
یوں ہی فضل یاب رہیں. میری دعا ہے کہ فرحت کے برادران راحت میاں، مسرت میاں، عشرت
میاں، ان کے بہنوئی محی میاں اور بہن کی سعادت مندی اور باہمی یگانگت والدہ کی
تسکین کا موجب ہو. میرے لیے عزیز رفیع فرحت اسم باسٰمی ہی تھے.
میں تفصیل سے لکھ کر دل ہلکا
کرنا چاہتا تھا مگر شدت جذبات اظہار میں میں رکاوٹ بنی. لہٰذا احوال واقعی کے طور
پر کچھ ہی لکھ سکا لیکن مکتبہ جامعہ کے جنرل منیجر شاہد علی خاں صاحب اور دیگر
کارکن احباب نے ہماری خواہش کے پیش نظر چند روز میں ہی شکر گزار اور آسودہ خاطر کر
دیا.
عبدالله ولی بخش قادری
44-اے،
اوکھلا. جامعہ نگر
نئی دہلی، 110025
No comments:
Post a Comment