غزل
کبھی اُجاڑے کبھی یہ بساۓ جاتے ہیں
ذرا سی بات پہ گھر کیوں جلاۓ جاتے ہیں
عجیب شہر ہے خود کو سنبھال کر رکھنا
یہاں فصیلوں پہ سر بھی سجاۓ جاتے ہیں
بغاوتیں بھی ہمیشہ وہاں پہ ہوتی ہیں
جہاں زبان پہ تالے لگاۓ جاتے ہیں
وہ جن سے پھل کی ہے امید اور نہ ساۓ کی
گھروں میں ایسے شجر کیوں لگاۓ جاتے ہیں
بَھلے بُرے کو ہے پہچاننا بہت مشکل
یہاں تو چہرے پہ چہرے لگاۓ جاتے ہیں
اندھیری رات میں تھوڑی سی روشنی کے لیے
کہیں چراغ کہیں گھر جلاۓ جاتے ہیں
عزیز رفیع فرحت بدایونی
کبھی اُجاڑے کبھی یہ بساۓ جاتے ہیں
ذرا سی بات پہ گھر کیوں جلاۓ جاتے ہیں
عجیب شہر ہے خود کو سنبھال کر رکھنا
یہاں فصیلوں پہ سر بھی سجاۓ جاتے ہیں
بغاوتیں بھی ہمیشہ وہاں پہ ہوتی ہیں
جہاں زبان پہ تالے لگاۓ جاتے ہیں
وہ جن سے پھل کی ہے امید اور نہ ساۓ کی
گھروں میں ایسے شجر کیوں لگاۓ جاتے ہیں
بَھلے بُرے کو ہے پہچاننا بہت مشکل
یہاں تو چہرے پہ چہرے لگاۓ جاتے ہیں
اندھیری رات میں تھوڑی سی روشنی کے لیے
کہیں چراغ کہیں گھر جلاۓ جاتے ہیں
عزیز رفیع فرحت بدایونی
A Ghazal by Farhat Badayuni |
An Urdu Ghazal by Aziz Rafi Farhat Badayuni |
कभी उजाड़े कभी ये बसाये जाते हैं
ज़रा सी बात पे घर क्यों जलाये जाते हैं
अजीब शहर है ख़ुद को संभाल कर रखना
यहाँ फ़सीलों पे सर भी सजाये जाते हैं
बग़ावतें भी हमेशा वहाँ पे होती हैं
जहां ज़बान पे ताले लगाये जाते हैं
वह जिनसे फल की है उम्मीद और न साये की
घरों में ऐसे शजर क्यों लगाये जाते हैं
भले बुरे को है पहचानना बहुत मुश्किल
यहाँ तो चेहरे पे चेहरे लगाये जाते हैं
अंधेरी रात में थोड़ी सी रौशनी के लिये
कहीं चिराग़ कहीं घर जलाये जाते हैं
अज़ीज़ रफ़ी फ़रहत बदायूनी
No comments:
Post a Comment