Wednesday, November 30, 2011

غزل : رفیقوں کو یہ منظر دیکھنے دو | قلم ہوتے ہوئے سر دیکھنے دو

رفیقوں کو یہ منظر دیکھنے دو
قلم ہوتے ہوئے سر دیکھنے دو

کرے نہ اب وہ اُڑنے کا ارادہ
اُسے اپنے کٹے پر دیکھنے دو

زمانے کے مناظر آپ دیکھیں
مجھے میرا جلا گھر دیکھنے دو

کبھی جو پھول برساتے تھے ہم پر
اب ان ہاتھوں میں پتھر دیکھنے دو

بڑا معصوم ہے چہرہ تمھارا
ذرا دل کے بھی اندر دیکھنے دو

اترنا ہے جسے سینے میں میرے
وہ نیزہ ہے کہ خنجر دیکھنے دو

تڑپنا ہے سمندر سے نکل کر
نظر بھر کے سمندر دیکھنے دو
 ___________

Saturday, November 26, 2011

غزل : کبھی اُجاڑے کبھی یہ بساۓ جاتے ہیں | ذرا سی بات پہ گھر کیوں جلاۓ جاتے ہیں

کبھی اُجاڑے کبھی یہ بساۓ جاتے ہیں
ذرا سی بات پہ گھر کیوں جلاۓ جاتے ہیں

عجیب شہر ہے خود کو سمبھال کر رکھنا
یہاں فصیلوں پہ سر بھی سجاۓ جاتے ہیں

بغاوتیں بھی ہمیشہ وہاں پہ ہوتی ہیں
جہاں زبان پہ تالے لگاۓ جاتے ہیں

وہ جن سے پھل کی ہے امید اور نہ ساۓ کی
گھروں میں ایسے شجر کیوں لگاۓ جاتے ہیں

بھلے بُرے کو ہے پہچاننا بہت مشکل
یہاں تو چہرے پہ چہرے لگاۓ جاتے ہیں

اندھیری رات میں تھوڑی سی روشنی کے لیے
کہیں چراغ کہیں گھر جلاۓ جاتے ہیں
___________

Tuesday, November 22, 2011

غزل : اگر آنکھیں مری پر نم نہیں ہیں | تو تم یہ مت سمجھنا غم نہیں ہیں

اگر آنکھیں مری پر نم نہیں ہیں
تو تم یہ مت سمجھنا غم نہیں ہیں

خدارا تم مرے دل سے نہ کھیلو
زمانے میں کھلونے کم نہیں ہیں

بھری دنیامیں کھوجاتا ہے جوبھی
محبت میں حدیں یہ کم نہیں ہیں

محبت ان دنوں بیزار سی ہے
نہیں ہم آپ سے برہم نہیں ہیں
____________

Thursday, November 17, 2011

غزل : رات کو چھیڑی جو اس نے دردِ دل کی داستاں | سُن رہے تھے ہم مگر دل کھو گیا جانے کہاں

رات کو چھیڑی جو اس نے دردِ دل کی داستاں
سُن رہے تھے ہم مگر دل کھو گیا جانے کہاں

کوئی بتلاتا نہیں اب کِس سے پوچھے ہم یہاں
بجلیاں کیسے گریں اور کیسے اُجڑا گلستاں

طنز کرتی ہے زمیں اور ہنس رہا ہے آسماں
کوئی بھی اپنا نہیں ہے جائیں تو جائیں کہاں

کیا سناۓ حالِ دل وہ شخص ہے جو بے زباں
اس بھری دنیا سے جائے بھی تو اب جائے کہاں

نام جب آنے لگا میرا تمہارا ساتھ ساتھ
بن گئے دشمن وہ سارے جو تھے اپنے مہرباں
_______________