Saturday, November 26, 2011

غزل : کبھی اُجاڑے کبھی یہ بساۓ جاتے ہیں | ذرا سی بات پہ گھر کیوں جلاۓ جاتے ہیں

کبھی اُجاڑے کبھی یہ بساۓ جاتے ہیں
ذرا سی بات پہ گھر کیوں جلاۓ جاتے ہیں

عجیب شہر ہے خود کو سمبھال کر رکھنا
یہاں فصیلوں پہ سر بھی سجاۓ جاتے ہیں

بغاوتیں بھی ہمیشہ وہاں پہ ہوتی ہیں
جہاں زبان پہ تالے لگاۓ جاتے ہیں

وہ جن سے پھل کی ہے امید اور نہ ساۓ کی
گھروں میں ایسے شجر کیوں لگاۓ جاتے ہیں

بھلے بُرے کو ہے پہچاننا بہت مشکل
یہاں تو چہرے پہ چہرے لگاۓ جاتے ہیں

اندھیری رات میں تھوڑی سی روشنی کے لیے
کہیں چراغ کہیں گھر جلاۓ جاتے ہیں
___________

No comments:

Post a Comment