رات کو چھیڑی
جو اس نے دردِ دل کی داستاں
سُن رہے تھے
ہم مگر دل کھو گیا جانے کہاں
کوئی بتلاتا
نہیں اب کِس سے پوچھے ہم یہاں
بجلیاں کیسے
گریں اور کیسے اُجڑا گلستاں
طنز کرتی ہے
زمیں اور ہنس رہا ہے آسماں
کوئی بھی
اپنا نہیں ہے جائیں تو جائیں کہاں
کیا سناۓ حالِ
دل وہ شخص ہے جو بے زباں
اس بھری دنیا
سے جائے بھی تو اب جائے کہاں
نام جب آنے
لگا میرا تمہارا ساتھ ساتھ
No comments:
Post a Comment