Friday, January 27, 2012

غزل : مرے نگر کے اندھیروں میں کچھ کمی تو ہے | بھلے ہی گھر کو جلایا ہے روشنی تو ہے

مرے نگر کے اندھیروں میں کچھ کمی تو ہے
بھلے ہی گھر کو جلایا ہے روشنی تو ہے

خوشی سے کون بھلا اُس کو چھوڑ سکتا ہے
بھلے ہی بوجھ ہے لیکن یہ زندگی تو ہے

یہ مانتے ہیں کہ سب لوگ ہم خیال نہیں
مگر دکھانے کو اک ربط باہمی تو ہے

یہ اور بات ہے تجھ سے بچھڑ کر زندہ ہیں
ترے بغیر مگر کچھ نہ کچھ کمی تو ہے
___________
Farhat Badayuni

Thursday, January 19, 2012

غزل : وہ گنہہ اتنا حسین تھا کہ سزا بھول گئے | تھی زمانے پہ نظر اپنی خطا بھول گئے

وہ گنہہ اتنا حسین تھا کہ سزا بھول گئے
تھی زمانے پہ نظر اپنی خطا بھول گئے

ہے بجا جوش میں کچھ بھی نہیں آتا ہے نظر
ہر طرف اپنے مخالف تھی ہوا بھول گئے

اپنی مجبوریاں بڑھتی رہیں طوفاں کی طرح
جان ِ جاں تیری ہر اک شوخ ادا بھول گئے

جو ستاتا ہے اُسے بھولنا آسان نہیں
ہم کو تُو یاد رہا، بادِ صبا بھول گئے
______________

Farhat Badayuni

Thursday, January 12, 2012

غزل : کہیں پہ سوکھا کہیں چاروں سمت پانی ہے | غریب لوگوں پہ قدرت کی مہربانی ہے

کہیں پہ سوکھا کہیں چاروں سمت پانی ہے
غریب لوگوں پہ قدرت کی مہربانی ہے

ہر ایک شخص کی اپنی عجب کہانی ہے
یہ لگ رہا ہے کہ اب سر سے اونچا پانی ہے

وہ لوگ بھی تو محل پہ محل بناتے رہے
جنھیں خبر تھی کہ یہ کائنات فانی ہے

لگی ہوئی ہے اسی کی تلاش میں دنیا
پتا ہے جس کا نہ جس کی کوئی نشانی ہے

یہ اور بات ہے ہم ساتھ ساتھ رہتے ہیں
دلوں میں دشمنی لیکن بہت پرانی ہے
___________

Farhat Badayuni

Friday, January 6, 2012

غزل : لوگ کیسے ہیں یہاں کے، یہ نگر کیسا ہے | اُن کی جادو بھری باتوں میں اثر کیسا ہے

لوگ کیسے ہیں یہاں کے، یہ نگر کیسا ہے؟
اُن کی جادو بھری باتوں میں اثر کیسا ہے؟

ڈوبنے والے کو باہر تو نکل آنے دو
بعد میں پوچھتے رہنا کہ بھنور کیسا ہے؟

کیا بتا پائیں گے فٹ پاتھ پہ سونے والے
کوئی پوچھے بھی اگر اُن سے کہ گھر کیسا ہے؟

آندھیاں رکتے ہی دیکھیں گے چمن میں جاکر
جس کی کمزور جڑیں تھیں وہ شجر کیسا ہے؟

چاند سے چہرے پہ کل جس کے خراش آئی تھی
مانا دشمن تھا، بتاؤ تو مگر کیسا ہے؟
__________________