گمان جس کا نہیں ہے
وہ ہو بھی سکتا ہے
جو نا خدا ہے وہ
کشتی ڈبو بھی سکتا ہے
زمانے بھر سے وہ جِن
کو چُھپاۓ پھرتا ہے
ان آنسوؤں سے وہ
چہرہ بھگو بھی سکتا ہے
اگر سمجھتے ہو اپنا
تو اُس کے ساتھ رہو
وہ بھیڑ بھاڑ میں
دنیا کی کھو بھی سکتا ہے
جہاں پہ اُگتی رہی
ہیں فساد کی فصلیں
وہاں وہ امن کا اک
بیج بو بھی سکتا ہے
خود اپنے آپ ضرورت
پہ جاگنا سیکھو
جگانے والے کا کیا
ہے وہ سو بھی سکتا ہے
یہ آفتاب جو دیتا
ہے روشنی دن میں
سیاہ رات کے ساۓ میں کھو بھی سکتا ہے
____________
No comments:
Post a Comment