Thursday, November 8, 2012

ہم نوا بھی رقیب لگتا ہے

ہم نوا بھی رقیب لگتا ہے
اب تو سب کچھ عجیب لگتا ہے
اِس لئے اُس کو چاند کہتا ہوں
دور ہوکر قریب لگتا ہے
_______________

Farhat Badayuni Poetry

Saturday, October 13, 2012

گیت : آج کسی سے پیار ہوا ہے

آج کسی سے پیار ہوا ہے
وہ بھی پہلی بار ہوا ہے

دنیا سے جب دل گھبراۓ
تنہا رہنے کو لالچاۓ
ہم کو اسی کی یاد ستائے
جس سے ابھی اِنکار ہوا ہے
تب سے سمجھ لو پیار ہوا ہے
وہ بھی پہلی بار ہوا ہے

خوابوں میں ہر رات وہ آئے
دل کی بات زباں تک لائے
پھر بھی اس سے کہہ نہ پائے
تب یہ سمجھ لو پیار ہوا ہے
وہ بھی پہلی بار ہوا ہے

کر کے اشارہ اُسے بلاؤ
دل کی بات زباں تک لاؤ
اور اسی سے کہہ نہ پاؤ
ایسے کہیں اظہار ہوا ہے
تم کو کسی سے پیار ہوا ہے
وہ بھی پہلی بار ہوا ہے

ملتا ہو جو نظریں جھکائے
بات کرے تو شرما جائے
کبھی ہنسے اور کبھی رُلائے
جس دن سے دیدار ہوا ہے
تب یہ سمجھ لو پیار ہوا ہے
وہ بھی پہلی بار ہوا ہے
__________
 
Farhat Badayuni
A Geet by Farhat Badayuni
 

Tuesday, September 11, 2012

گیت : یار سے اپنے ڈرتے رہیے

یار سے اپنے ڈرتے رہیے
جو بھی کہے وہ کرتے رہیے

یار بِنا گھربار ہے سونا
یہ سارا سنسار ہے سونا
حسن کا یہ بازار ہے سونا
پیار میں آہیں بھرتے رہیے
یار سے اپنے ڈرتے رہیے
جو بھی کہے وہ کرتے رہیے

جس دن سے وہ ملا نہیں ہے
پھول چمن میں کھلا نہیں ہے
ہمیں کوئی پر گلہ نہیں ہے
پیار میں جیتے مرتے رہیے
یار سے اپنے ڈرتے رہیے
جو بھی کہے وہ کرتے رہیے

دنیا بھر سے اسے چھپاؤ
یار کو دل کی بات بتاؤ
دل کا ہر اک داغ دکھاؤ
اُس کے دل میں اُترتے رہیے
یار سے اپنے ڈرتے رہیے
جو بھی کہے وہ کرتے رہیے
____________

A Geet by Farhat Bdayuni

Tuesday, July 10, 2012

گیت : دیکھے تھے کچھ پیار کے سپنے

دیکھے تھے کچھ پیار کے سپنے
دل کے اور دلدار کے سپنے

دیکھا تھا کوئی پیار کرے گا
چھپ چھپ کے دیدار کرے گا
شرما کے اقرار کرے گا
دنیا سے تکرار کرے گا
دیکھے تھے کچھ پیار کے سپنے
دل کے اور دلدار کے سپنے


دیکھا تھا ہریالی ہوگی
گھر ہوگا گھر والی ہوگی
سندر سی اک سالی ہوگی
ہر دن اک دیوالی ہوگی
دیکھے تھے کچھ پیار کے سپنے
دل کے اور دلدار کے سپنے


کب دیکھا تھا روتے ہوں گے
آنسو چہرہ دھوتے ہوں گے
اپنے جدا نہیں ہوتے ہوں گے
جاگتے ھم وہ سوتے ہوں گے
جو دیکھے تھے پیار کے سپنے
وہ سب تھے بے کار کے سپنے


آنکھ کُھلی تو تنہائی تھی
دور بج رہی شہنائی تھی
رخصت کرنے کو آئی تھی
وہ بھی اُس کی پرچھائیں تھی
جو دیکھے تھے پیار کے سپنے
دل کے اور دلدار کے سپنے
وہ سب تھے بے کار کے سپنے
____________
 
Farhat Badayuni Poetry
Dreams by Farhat Badayuni
 

Wednesday, June 20, 2012

گیت : تیری زلفیں کالی کالی

تیری زلفیں کالی کالی
آنکھیں ہیں تیری متوالی
تیرا چہرہ چاند کا ٹکڑا
باتیں تیری بھولی بھالی
تیری زلفیں کالی کالی
آنکھیں ہیں تیری متوالی

لگتا ہے مجھ کو دیوانا
شمع کا جیسے پروانا
جلنا ہے قسمت میں تیری
موت ہے تجھ کو آنے والی
تیری زلفیں کالی کالی
آنکھیں ہیں تیری متوالی

پیار میں جینا پیار میں مرنا
دنیا سے کس بات کا ڈرنا
دل میں اپنے پیار بھرا ہے
مانا اپنی جیب ہے خالی
تیری زلفیں کالی کالی
آنکھیں ہیں تیری متوالی

ساتھ جائیں گے ساتھ مریں گے
مر کے بھی ہم پیار کریں گے
دنیا ہم کو یاد کرے گی
پیار بنے گا اپنا مثالی
تیری زلفیں کالی کالی
آنکھیں ہیں تیری متوالی

آنکھوں میں تصویر تمہاری
خوابوں میں تعبیر تمہاری
ہر دھڑکن میں نام تمہارا
تم جو ملے تو دنیا پالی
تیری زلفیں کالی کالی
آنکھیں ہیں تیری متوالی
____________
 
Zulfen : A Geet by Farhat Badayuni
 

Sunday, June 3, 2012

گیت : اے مری زندگی اے مری زندگی

اے مری زندگی اے مری زندگی
تو کسی اور کی ہو نہ جانا کبھی
اے مری زندگی اے مری زندگی

دھڑکنوں میں مری بس تیرا نام ہے
تو ہی صبح مری تو مری شام ہے
تو ہی آغاز ہے تو ہی انجام ہے
تو ملی تو مجھے مل گئی ہر خوشی
اے مری زندگی اے مری زندگی
تو کسی اور کی ہو نہ جانا کبھی

بِن ترے جسم میرا یہ کس کام کا
جیسے میکش بِنا حال ہو جام کا
جیسے رادھا بِنا نام ہو شیام کا
تو تصوّر میرا تو مری شاعری
اے مری زندگی اے مری زندگی
تو کسی اور کی ہو نہ جانا کبھی

تجھ سے بچھڑے تو پھر ہم کدھر جائیں گے
اس جہاں کے اندھیروں میں کھو جائیں گے
یہ زمانہ ہنسے گا جدھر جائیں گے
میرا جو کچھ ہے سوغات ہے سب تیری
اے مری زندگی اے مری زندگی
تو کسی اور کی ہو نہ جانا کبھی
___________
 
Geet by Farhat Badayuni
 

Thursday, May 17, 2012

گیت : تو اکیلا نہیں

تو اکیلا نہیں تو اکیلا نہیں
کون ہے جس نے سکھ دکھ کو جھیلا نہیں
تو اکیلا نہیں تو اکیلا نہیں

ساتھ تیرے پہاڑی ہوائیں بھی ہیں
سرد موسم کی اَلھڑ ادائیں بھی ہیں
جیت کر لوٹنے کی دعائیں بھی ہیں
کون ہے جس نے سکھ دکھ کو جھیلا نہیں
تو اکیلا نہیں تو اکیلا نہیں

ملک کی ساری ملت ترے ساتھ ہے
دیش کی ساری عظمت ترے ساتھ ہے
تنہا لڑنے کی ہمت ترے ساتھ ہے
کیسا فوجی؟ اگر جاں پہ کھیلا نہیں
تو اکیلا نہیں تو اکیلا نہیں

ساتھیوں کی وفا لے کے چل ساتھ میں
اپنے ہتھیار لے کے نکل ساتھ میں
دھول دھرتی کی زخموں پہ مل ساتھ میں
زندگی صرف خوشیوں کا میلا نہیں
تو اکیلا نہیں تو اکیلا نہیں 
__________
A Geet by Farhat Badayuni

Tuesday, April 17, 2012

گیت : آ جاؤ چلا جاۓ نہ برسات کا موسم

آ جاؤ چلا جاۓ نہ برسات کا موسم
کہتے ہیں اِسے لوگ ملاقات کا موسم

زلفوں کو تری دیکھ مچل جاۓ گا موسم
گر دیر کروگے تو بدل جاۓ گا موسم
مہماں ہے گھڑی بھر کا نکل جاۓ گا موسم
لگتی ہے مجھ کو اس میں زمانے کی شرارت
یوں خود سے بدلتا نہیں حالات کا موسم
آ جاؤ چلا جاۓ نہ برسات کا موسم
کہتے ہیں اِسے لوگ ملاقات کا موسم

آنکھوں سے تیری آج یہ برسات ہوئی ہے
اور ہونٹوں سے گرمی کی شروعات ہوئی ہے
زلفوں کے تلے جاڑے کی اک رات ہوئی ہے
جاڑا نہیں گرمی نہیں برسات نہیں ہے
گر کچھ بھی نہیں ہے تو ہے کس بات کا موسم
آ جاؤ چلا جاۓ نہ برسات کا موسم
کہتے ہیں اِسے لوگ ملاقات کا موسم
__________
 
A Geet by Farhat Badayuni
 

Monday, March 26, 2012

گیت : نا نا نا نا آہاں آہاں

نا نا نا نا  نا نا نا نا
آہاں آہاں آہاں آہاں

کرتا تھا ہر بات میں ہاں ہاں
پھر بھی میری بات نہ مانا
جانے کیسا تھا دیوانا
مشکل ہے اب اس کو بُھلانا
نا نا نا نا  نا نا نا نا

کہتا تھا ہر بات میں نا نا
دیتا تھا ہر بات پہ طعنا
گھر میرے بھولے سے نہ آنا
ورنہ جیل پڑے گا جانا
نا نا نا نا  نا نا نا نا

کرتا تھا ہر بات میں آہاں
کام تھا اس کا دل بہلانا
اُجڑوں کے گھر بار بسانا
ہر نَیّا کو پار لگانا
نا نا نا نا  نا نا نا نا

کہتا تھا ہر بات پہ نا نا
آتا تھا دل اُس کو چرانا
پھر اس میں تصویر لگانا
خوابوں کے محلوں کو سجانا
نا نا نا نا  نا نا نا نا

کہتا تھا ہر بات میں ہاں ہاں
دنیا سے کیسا گھبرانا
تم اپنے آنسو نہ بہانا
اس دولت کو یوں نہ گنوانا
نا نا نا نا  نا نا نا نا

کہتا تھا خوابوں میں نہ آنا
سوتے سے مجھ کو نہ جگانا
بھولے سے مجھ کو نہ ستانا
گاتا تھا بس ایک ترانا
نا نا نا نا  نا نا نا نا
__________
 
Geet by Farhat Badayuni
 

Wednesday, March 7, 2012

نظم : کبھی تو سُنو حالِ دل تم ہمارا

کبھی تو سُنو حالِ دل تم ہمارا
تمہارے بنا وقت کیسے گزارا

جو دل میں تھا میرے نہ تم جان پائے
نہ ضد اپنی چھوڑی نہ نزدیک آئے
خطاوار دونوں کو دنیا کہےگی
نہ تم لوٹے خود سے نہ ہم نے پکارا
کبھی تو سُنو حالِ دل تم ہمارا
تمہارے بنا وقت کیسے گزارا

بتاؤ نہ اب اپنی مجبوریاں تم
نہ کر پاؤ گے ختم یہ دوریاں تم
اگر اپنی قسمت میں منزل نہیں تھی
تو کیوں دے رہے تھے یہ جھوٹا سہارا
کبھی تو سُنو حالِ دل تم ہمارا
تمہارے بنا وقت کیسے گزارا

کبھی روٹھ جانا کبھی مان جانا
کبھی رونا دھونا کبھی مسکرانا
ہمیں یاد ہے تیرا گھبرا کے کہنا
جدا ہوکے رہنا نہیں ہے گوارا
کبھی تو سُنو حالِ دل تم ہمارا
تمہارے بنا وقت کیسے گزارا
_________
 
 
A Nazm by Farhat Badayuni
 

Monday, February 27, 2012

غزل : وہ پہلے قتل پھر اس پر ملال کرتا ہے | تمھارے شہر کا قاتل کمال کرتا ہے

وہ پہلے قتل پھر اس پر ملال کرتا ہے
تمھارے شہر کا قاتل کمال کرتا ہے
خلوص، پیار، وفا شاعری کی باتیں ہیں
جہاں میں کون کسی کا خیال کرتا ہے
مری زبان ہے جس کے جواب سے محروم
وہ بار بار وہی اک سوال کرتا ہے
وہ جس کی یاد میں گزرے ہے زندگی اپنی
کبھی کبھی وہ ہمارا خیال کرتا ہے
ہے دوستی پہ تمھیں ناز جس کی اے فرحت
وہ دشمنی بھی بڑی بے مثال کرتا ہے
______________

Ghazal by Farhat Badayuni

Tuesday, February 14, 2012

غزل : کہیں پہ گِر کے کہیں پہ سنبھل کے دیکھ چکے | تری بتائی ہر اک راہ چل کے دیکھ چکے

کہیں پہ گِر کے کہیں پہ سنبھل کے دیکھ چکے
تری بتائی ہر اک راہ چل کے دیکھ چکے


اب اپنے بارے میں کچھ ہم کو سوچ لینے دو
پرائی آگ میں سو بار جل کے دیکھ چکے


شبِ فراق میں کب کس کو چین آتا ہے
ہر ایک طرح سے کروٹ بدل کے دیکھ چکے
______________

Farhat Badayuni

Friday, February 3, 2012

غزل : نہ جانے آج وہ کس طرح سے مِلا مجھ سے | مجھے بھی اس سے گِلا اس کو بھی گِلا مجھ سے

نہ جانے آج وہ کس طرح سے مِلا مجھ سے
مجھے بھی اس سے گِلا اس کو بھی گِلا مجھ سے

عجیب بات ہے وہ بھی دعائیں دیتے ہیں
جنھیں کسی بھی طرح کا نہیں صلہ مجھ سے

میں سوچتا تھا کہ سارے پہاڑ ڈھو دوں گا
یہ اور بات ہے تنکا نہیں ہلا مجھ سے
____________
Farhat Badayuni

Friday, January 27, 2012

غزل : مرے نگر کے اندھیروں میں کچھ کمی تو ہے | بھلے ہی گھر کو جلایا ہے روشنی تو ہے

مرے نگر کے اندھیروں میں کچھ کمی تو ہے
بھلے ہی گھر کو جلایا ہے روشنی تو ہے

خوشی سے کون بھلا اُس کو چھوڑ سکتا ہے
بھلے ہی بوجھ ہے لیکن یہ زندگی تو ہے

یہ مانتے ہیں کہ سب لوگ ہم خیال نہیں
مگر دکھانے کو اک ربط باہمی تو ہے

یہ اور بات ہے تجھ سے بچھڑ کر زندہ ہیں
ترے بغیر مگر کچھ نہ کچھ کمی تو ہے
___________
Farhat Badayuni

Thursday, January 19, 2012

غزل : وہ گنہہ اتنا حسین تھا کہ سزا بھول گئے | تھی زمانے پہ نظر اپنی خطا بھول گئے

وہ گنہہ اتنا حسین تھا کہ سزا بھول گئے
تھی زمانے پہ نظر اپنی خطا بھول گئے

ہے بجا جوش میں کچھ بھی نہیں آتا ہے نظر
ہر طرف اپنے مخالف تھی ہوا بھول گئے

اپنی مجبوریاں بڑھتی رہیں طوفاں کی طرح
جان ِ جاں تیری ہر اک شوخ ادا بھول گئے

جو ستاتا ہے اُسے بھولنا آسان نہیں
ہم کو تُو یاد رہا، بادِ صبا بھول گئے
______________

Farhat Badayuni

Thursday, January 12, 2012

غزل : کہیں پہ سوکھا کہیں چاروں سمت پانی ہے | غریب لوگوں پہ قدرت کی مہربانی ہے

کہیں پہ سوکھا کہیں چاروں سمت پانی ہے
غریب لوگوں پہ قدرت کی مہربانی ہے

ہر ایک شخص کی اپنی عجب کہانی ہے
یہ لگ رہا ہے کہ اب سر سے اونچا پانی ہے

وہ لوگ بھی تو محل پہ محل بناتے رہے
جنھیں خبر تھی کہ یہ کائنات فانی ہے

لگی ہوئی ہے اسی کی تلاش میں دنیا
پتا ہے جس کا نہ جس کی کوئی نشانی ہے

یہ اور بات ہے ہم ساتھ ساتھ رہتے ہیں
دلوں میں دشمنی لیکن بہت پرانی ہے
___________

Farhat Badayuni