Monday, December 19, 2011

غزل : گمان جس کا نہیں ہے وہ ہو بھی سکتا ہے | جو ناخدا ہے وہ کشتی ڈبو بھی سکتا ہے

گمان جس کا نہیں ہے وہ ہو بھی سکتا ہے
جو نا خدا ہے وہ کشتی ڈبو بھی سکتا ہے

زمانے بھر سے وہ جِن کو چُھپاۓ پھرتا ہے
ان آنسوؤں سے وہ چہرہ بھگو بھی سکتا ہے

اگر سمجھتے ہو اپنا تو اُس کے ساتھ رہو
وہ بھیڑ بھاڑ میں دنیا کی کھو بھی سکتا ہے

جہاں پہ اُگتی رہی ہیں فساد کی فصلیں
وہاں وہ امن کا اک بیج بو بھی سکتا ہے

خود اپنے آپ ضرورت پہ جاگنا سیکھو
جگانے والے کا کیا ہے وہ سو بھی سکتا ہے

یہ آفتاب جو دیتا ہے روشنی دن میں
سیاہ رات کے ساۓ میں کھو بھی سکتا ہے
____________

Friday, December 16, 2011

غزل : اس سے پوچھا کیا ہوا تو کسمسا کے رہ گئی | ایک دوشیزہ بِنا بولے ہی سب کچھ کہہ گئی

اس سے پوچھا کیا ہوا تو کسمسا کے رہ گئی
ایک دوشیزہ بِنا بولے ہی سب کچھ کہہ گئی

دشمنوں کے گھر گئے وہ بھی بِنا دعوت کے آپ
کیا ہوا یہ آج کیسے الٹی گنگا بہہ گئی

نہ تو مندر ہی بنا نہ اُس جگہ مسجد بنی
ایک تاریخی عمارت تھی جو کل تک ڈھہ گئی

بھوک اور افلاس دنیا بھر کے دکھ عصمت دری
ایک ماں بچّوں کی خاطر ہنس کے سب کچھ سہہ گئی 
_________________

 

Tuesday, December 13, 2011

غزل : تم اپنا تنگ رویّہ بدل کے دیکھو تو | نئے خیال کے سانچے میں ڈھل کے دیکھو تو

تم اپنا تنگ رویّہ بدل کے دیکھو تو
نئے خیال کے سانچے میں ڈھل کے دیکھو تو

ہمیشہ سوچتے رہتے ہو اپنے بارے میں
پرائی آگ میں اک بار جل کے دیکھو تو

بدن کے بند دریچوں سے جھانکنے والو
کُھلی فضا کے چمن میں نکل کے دیکھو تو

وہ اپنے راستے، مانا بدلتا رہتا ہے
تم ایک بار ذرا ساتھ چل کے دیکھو تو
______________

Thursday, December 8, 2011

غزل : تم اپنا فیصلہ کچھ دیر ٹالو | کوئی سکہ ہوا میں پھر اچھالو

تم اپنا فیصلہ کچھ دیر ٹالو
کوئی سکہ ہوا میں پھر اچھالو

سمبھل جاۓ گا خود سارا زمانہ
تم اپنے آپ کو تھوڑا سمبھالو

یہ کب ڈس لیں بھروسہ کچھ نہیں ہے
انھیں تم آستینوں میں نہ پالو

نہیں ہے قدر داں جب کوئی ان کا
تو پھر آنکھوں سے ان کو پونچھ ڈالو

نہیں ہم بے وفا ہر گز نہیں ہیں
اگر شک ہے تو پھر سے آزما لو
______________


Sunday, December 4, 2011

غزل : لگتا ہے جیسے دوسری دنیا سے آئے ہیں | یہ لوگ جو لبوں پہ تبسم سجائے ہیں

لگتا ہے جیسے دوسری دنیا سے آئے ہیں
یہ لوگ جو لبوں پہ تبسم سجائے ہیں

ملتا ہے یارو کون یہاں اس خلوص سے
جو اپنے لگ رہے ہیں سمجھ لو پرائے ہیں

پانا تجھے محال نہیں تھا، نه جانے کیوں؟
منزل ترے قریب سے ہم لوٹ آئے ہیں

خوش ہو کے سُن رہے تھے محبت کی داستاں
آیا جو اپنا نام بڑے تلملائے ہیں
 _______________
 

Wednesday, November 30, 2011

غزل : رفیقوں کو یہ منظر دیکھنے دو | قلم ہوتے ہوئے سر دیکھنے دو

رفیقوں کو یہ منظر دیکھنے دو
قلم ہوتے ہوئے سر دیکھنے دو

کرے نہ اب وہ اُڑنے کا ارادہ
اُسے اپنے کٹے پر دیکھنے دو

زمانے کے مناظر آپ دیکھیں
مجھے میرا جلا گھر دیکھنے دو

کبھی جو پھول برساتے تھے ہم پر
اب ان ہاتھوں میں پتھر دیکھنے دو

بڑا معصوم ہے چہرہ تمھارا
ذرا دل کے بھی اندر دیکھنے دو

اترنا ہے جسے سینے میں میرے
وہ نیزہ ہے کہ خنجر دیکھنے دو

تڑپنا ہے سمندر سے نکل کر
نظر بھر کے سمندر دیکھنے دو
 ___________

Saturday, November 26, 2011

غزل : کبھی اُجاڑے کبھی یہ بساۓ جاتے ہیں | ذرا سی بات پہ گھر کیوں جلاۓ جاتے ہیں

کبھی اُجاڑے کبھی یہ بساۓ جاتے ہیں
ذرا سی بات پہ گھر کیوں جلاۓ جاتے ہیں

عجیب شہر ہے خود کو سمبھال کر رکھنا
یہاں فصیلوں پہ سر بھی سجاۓ جاتے ہیں

بغاوتیں بھی ہمیشہ وہاں پہ ہوتی ہیں
جہاں زبان پہ تالے لگاۓ جاتے ہیں

وہ جن سے پھل کی ہے امید اور نہ ساۓ کی
گھروں میں ایسے شجر کیوں لگاۓ جاتے ہیں

بھلے بُرے کو ہے پہچاننا بہت مشکل
یہاں تو چہرے پہ چہرے لگاۓ جاتے ہیں

اندھیری رات میں تھوڑی سی روشنی کے لیے
کہیں چراغ کہیں گھر جلاۓ جاتے ہیں
___________

Tuesday, November 22, 2011

غزل : اگر آنکھیں مری پر نم نہیں ہیں | تو تم یہ مت سمجھنا غم نہیں ہیں

اگر آنکھیں مری پر نم نہیں ہیں
تو تم یہ مت سمجھنا غم نہیں ہیں

خدارا تم مرے دل سے نہ کھیلو
زمانے میں کھلونے کم نہیں ہیں

بھری دنیامیں کھوجاتا ہے جوبھی
محبت میں حدیں یہ کم نہیں ہیں

محبت ان دنوں بیزار سی ہے
نہیں ہم آپ سے برہم نہیں ہیں
____________

Thursday, November 17, 2011

غزل : رات کو چھیڑی جو اس نے دردِ دل کی داستاں | سُن رہے تھے ہم مگر دل کھو گیا جانے کہاں

رات کو چھیڑی جو اس نے دردِ دل کی داستاں
سُن رہے تھے ہم مگر دل کھو گیا جانے کہاں

کوئی بتلاتا نہیں اب کِس سے پوچھے ہم یہاں
بجلیاں کیسے گریں اور کیسے اُجڑا گلستاں

طنز کرتی ہے زمیں اور ہنس رہا ہے آسماں
کوئی بھی اپنا نہیں ہے جائیں تو جائیں کہاں

کیا سناۓ حالِ دل وہ شخص ہے جو بے زباں
اس بھری دنیا سے جائے بھی تو اب جائے کہاں

نام جب آنے لگا میرا تمہارا ساتھ ساتھ
بن گئے دشمن وہ سارے جو تھے اپنے مہرباں
_______________


Wednesday, October 26, 2011

غزل : آجاؤ چلا جاۓ نہ برسات کا موسم | کہتے ہیں اسے لوگ ملاقات کا موسم

آجاؤ چلا جاۓ نہ برسات کا موسم
کہتے ہیں اسے لوگ ملاقات کا موسم

جاڑا نہیں گرمی نہیں برسات نہیں ہے
گر کچھ بھی نہیں ہے تو ہے کس بات کا موسم

لگتی ہے مجھے اس میں زمانے کی شرارت
یوں خود سے بدلتا نہیں حالات کا موسم
__________

Friday, October 21, 2011

غزل : مسجد کو ٹوڑ اس پہ جو مندر بناۓ گا | مندر کو جائے گا تو خدا یاد آۓ گا

مسجد کو ٹوڑ اس پہ جو مندر بناۓ گا
مندر کو جائے گا تو خدا یاد آۓ گا

آنکھوں سے میری چھین رہا ہے وہ روشنی
کہتا ہے میرے گھر میں وہ سورج اگاۓ گا

پہلے تو بانٹ دیگا وہ فرقوں میں اس کے بعد
جس کو بھی دل میں آۓ گا اس کو ستاۓ گا

اب بے وفائی جو بھی کرے گا وطن کے ساتھ
دنیا اسے ملے گی نہ جنت ہی پاۓ گا

جس قوم سے شناخت ہے پروردگار کی
اس قوم کی شناخت کوئی کیا مٹاۓ گا
____________


Tuesday, October 4, 2011

غزل : میں اپنے گیت تمھیں بیچنے نہیں آیا | یہی ہے صرف مرا عمر بھر کا سرمایا

میں اپنے گیت تمھیں بیچنے نہیں آیا
یہی ہے صرف مرا عمر بھر کا سرمایا

اے میری زندگی اب ساتھ چھوڑ دے میرا
یہ بوجھ کوئی ہمیشہ نہیں اٹھا پایا

چمن میں دل نہیں لگتا تھا اب قفس میں ہوں
مرا نصیب کہاں سے مجھے کہاں لایا

جو دیکھا غور سے خود کو تو صرف اپنے سوا
ہر ایک شخص مجھے باوفا نظر آیا

__________

Friday, September 30, 2011

غزل : جو دیکھنا ہو آپ کو منظر شباب کا | آنکھوں سے میری دیکھیے چہرہ جناب کا

جو دیکھنا ہو آپ کو منظر شباب کا
آنکھوں سے میری دیکھیے چہرہ جناب کا

کیا بار بار اس کے ہی بارے میں سوچنا
کیا حال پوچھنا کسی خانہ خراب کا

وہ جس پہ نام آپ کا میں نے لکھا نہ ہو
ایسا ورق نہیں کوئی دل کی کتاب کا
____________

Sunday, September 18, 2011

غزل : رات کا ہر راز اس طرح چھپایا جائے گا | صبح ہوتے ہی چراغوں کو بجھایا جائے گا

رات کا ہر راز اس طرح چھپایا جائے گا
صبح ہوتے ہی چراغوں کو بجھایا جائے گا

آڑ میں انصاف کی اک گل کھلایا جائے گا
جانتے ہیں فیصلے میں کیا سنایا جائے گا

سارے الزاموں کو اس کے سر لگایا جائے گا
بعد مرنے کے اسے مجرم بنایا جائے گا

یہ خبر تھی گھر غریبوں کے اجاڑے جائیں گے
یہ نہ سوچا تھا خدا کو بھی ستایا جائے گا
____________

Tuesday, September 13, 2011

غزل : وہ مجھ پہ وار نہ کرتا تو اور کیا کرتا | میں جاں نثار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

وہ مجھ پہ وار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
میں جاں نثار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

حدیں بنائی گئی تھیں فقط اُسی کے لیے
انھیں وہ پار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

کوئی نہیں تھا سہارا مرا سوا تیرے
میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

ملے گا مجھ سے یہ اُس نے یقیں دلایا تھا
میں انتظار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

رقیب تھا وہ مگر دوستوں سے بہتر تھا
میں اس سے پیار نہ کرتا تو اور کیا کرتا
___________